Na Khawandgi - Article No. 2658
- Get link
- X
- Other Apps
Na Khawandgi - Article No. 2658
ناخاوندگی - تحریر نمبر 2658
پاکستان میں اَن پڑھ افراد کی تعداد پانچ کروڑ ستر لاکھ ہو گئی ہے اور ہر سال آبادی میں 20 لاکھ ناخواندہ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے
بدھ 1 فروری 2023
ڈاکٹر محمد یونس بٹ
پاکستان میں اَن پڑھ افراد کی تعداد پانچ کروڑ ستر لاکھ ہو گئی ہے اور ہر سال آبادی میں 20 لاکھ ناخواندہ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔یہ تو خوشی کی بات ہے کہ ہر سال 20 لاکھ افراد بے روزگار ہونے سے بچ رہے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اَن پڑھ سب کچھ کر سکتا ہے‘یہاں تک کہ وزیر بھی بن سکتا ہے‘مگر بے روزگار کے لئے پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔ممکن ہے کچھ لوگوں کو اس سے اختلاف ہو۔یوں بھی ہمارے ہاں اختلاف رائے اس قدر ہے کہ میں کل سارا دن مختلف لوگوں سے ایک ہی سوال پوچھتا رہا مگر ہر کسی کا جواب دوسرے سے نہیں ملتا تھا۔شاید آپ حیران ہوں کہ میں کیا پوچھ رہا تھا؟میں نے سب سے یہی سوال کیا تھا کہ کیا وقت ہوا ہے؟
بے روزگار اور بے کار میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ہر فرد کو پڑھا لکھا کر ذمہ دار شہری بنانا چاہئے حالانکہ انہیں ذمہ دار شہری بنانے کے لئے سب سے پہلے تو انہیں گاؤں سے شہر شفٹ کر کے شہری بنانا ہو گا۔پھر پولیس کے تعاون سے کسی کام کا ذمہ دار ٹھہرا کر آپ انہیں ذمہ دار شہری بنا سکتے ہیں۔پڑھا لکھا کر آپ انہیں ہماری طرح بے روزگار بنا دیں گے۔یوں اس عمر میں ہماری ناخاوندگی کی وجہ ناخواندگی ہی ہے ورنہ اب تک خاوند کی جاب تو کر رہے ہوتے۔
بے روزگاری بڑھانے میں حکومت کے ساتھ ساتھ خدا کا بھی بڑا ہاتھ ہے کہ وہ ایک بندہ اوپر لاتا ہے تو ستر نیچے بھیج دیتا ہے۔پھر ملازمت کے لئے بنیادی کوالیفیکیشن رشوت اور سفارش ہے۔رشوت کا ہمارے معاشرے میں اس قدر عمل دخل ہے کہ ایک ڈاکٹر جس کی فیس سو روپے تھی اس کے پاس ایک مریض آیا ڈاکٹر نے معائنے کے بعد بتایا کہ ایک ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے ہو تو مریض نے پانچ سو کا نوٹ ڈاکٹر کو دیتے ہوئے کہا ”اب بتائیں میں کتنے ماہ زندہ رہوں گا۔“ پچھلے دنوں میرا ایک دوست کہنے لگا ”اب ثابت ہو گیا کہ خواب جھوٹے ہوتے ہیں۔“ میں نے کہا ”تم تو نفسیات کی روشنی میں ثابت کیا کرتے تھے کہ خواب حقیقت کا پر تو ہوتے ہیں‘اب تم نے کس طرح ثابت کر دیا کہ یہ جھوٹے ہوتے ہیں۔“ تو اس نے کہا ”میں نے رات خواب دیکھا ایک سرکاری دفتر میں مجھے انٹرویو کے لئے بلایا گیا اور پھر کسی سفارش کے بغیر ہی نوکری مل گئی۔اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ خواب جھوٹے ہوتے ہیں۔“
آسکر وائلڈ کہتا ہے کہ کچھ نہ کرنا دنیا میں مشکل ترین کام ہے۔مشکل ترین ہی نہیں ذہین ترین بھی۔یہ سچ ہے کہ بے روزگار ہونا اتنا مشکل کام ہے کہ میں نے اتنے لوگ کام کرتے مرتے نہیں دیکھے جتنے بے روزگاری سے مرتے ہیں۔لیکن پھر آج کل کا بے روزگار‘سکندر اعظم سے بہتر ہے اور اس کی بہتری یہ ہے کہ سکندر اعظم مر چکا اور یہ ابھی زندہ ہے۔
خواتین کی خواندگی کا عالم یہ ہے کہ ایک خاتون کی سرکردگی میں ایک سروے ٹیم بلوچستان گئی‘وہاں کئی قصبوں اور گاؤں میں پھرنے کے بعد ٹیم نے بتایا کہ اس سارے سفر کے دوران ہمیں صرف ایک پڑھی لکھی خاتون نظر آئی اور یہ خاتون وہ تھی جس کی سرکردگی میں یہ سروے ٹیم بلوچستان گئی تھی۔اب ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں اتنے اَن پڑھ ہیں تو ان کی نمائندگی کے لئے بھی اَن پڑھ ہی چاہئیں تاکہ وہ اسمبلی میں اس اکثریت کے مسائل بتا سکیں۔اس لئے ہمارے ہاں سیاست دانوں میں ہائی تعلیم یافتہ وہ ہوتا جو ہائی جماعت تک گیا ہو۔یوں بھی پڑھے لکھے نورتن ہوتے ہیں‘اکبر بننے کے لئے اَن پڑھ ہونا ضروری ہے۔ہمارے ایک وزیر سے ایک غیر ملکی صحافی نے پوچھا ”آپ کی تعلیم؟“ جواب ملا ”ایم اے کر لیتا اگر میٹرک میں رہ نہ جاتا۔“ وکٹر ہوگیو نے کہا ہے بے روزگاری ماں ہے جس کا ایک بچہ لوٹ مار اور ایک بچی بھوک ہے۔”ہمارے ہاں اس زچہ بچہ کی صحت کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔یہ سب سن کر میرا ایک دوست کہنے لگا اس سے تو لگتا ہے ایک بے روزگار سے زیادہ مظلوم دنیا میں کوئی نہیں۔“
ہم نے کہا ”ایک بے روزگار سے زیادہ مظلوم بھی دنیا میں ہیں۔“
بولا ”کون؟“
ہم نے کہا ”دو بے روزگار۔“
پاکستان میں اَن پڑھ افراد کی تعداد پانچ کروڑ ستر لاکھ ہو گئی ہے اور ہر سال آبادی میں 20 لاکھ ناخواندہ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔یہ تو خوشی کی بات ہے کہ ہر سال 20 لاکھ افراد بے روزگار ہونے سے بچ رہے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اَن پڑھ سب کچھ کر سکتا ہے‘یہاں تک کہ وزیر بھی بن سکتا ہے‘مگر بے روزگار کے لئے پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔ممکن ہے کچھ لوگوں کو اس سے اختلاف ہو۔یوں بھی ہمارے ہاں اختلاف رائے اس قدر ہے کہ میں کل سارا دن مختلف لوگوں سے ایک ہی سوال پوچھتا رہا مگر ہر کسی کا جواب دوسرے سے نہیں ملتا تھا۔شاید آپ حیران ہوں کہ میں کیا پوچھ رہا تھا؟میں نے سب سے یہی سوال کیا تھا کہ کیا وقت ہوا ہے؟
بے روزگار اور بے کار میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
ایک سروے کے مطابق دس بے کار آدمیوں میں چھ سرکاری ملازم ہوتے ہیں۔
ایک مصور نے تصویر بنائی اور کہا ”یہ تصویر حقیقت نگاری کا بہترین نمونہ ہے۔“ پوچھا گیا کہ اس میں آپ نے کیا دکھایا ہے ”مصور نے بتایا کہ اس میں بہت سے سرکاری ملازموں کو دفتر میں کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔“ دیکھنے والے نے کہا ”مگر اس میں تو کوئی کام نہیں کر رہا۔“ ”تو مصور نے کہا‘”جناب یہی تو حقیقت نگاری ہے۔“ ہمارے ایک دوست کو ڈاکٹر نے منع کیا کہ ذہنی کام نہ کریں سو اس نے سوچا کہ فارغ ہوں اور ایک ادبی کتاب لکھ دی۔ایسے ہی ایک سرکاری ملازم کو جو بیماری کی وجہ سے چھٹیاں کر رہا تھا‘ڈاکٹر نے کہا‘ ”آپ ایک ہفتے کے لئے مکمل آرام کریں اور کسی کام کو ہاتھ نہ لگائیں۔“ تو اس نے اگلے دن دفتر جانا شروع کر دیا۔سرکاری ملازمین کی چستی اور پھرتی کا اس سے اندازہ لگا لیں کہ محکمہ جنگلات نے بیان جاری کیا ہے کہ کوئی شکاری اس وقت تک یہاں گولی نہ چلائے جب تک اسے کوئی چیز متحرک نظر نہ آئے‘ یہ فیصلہ وہاں کے ملازمین کو گولی سے بچانے کے لئے کیا گیا تھا۔میرا ایک دوست جو سرکاری ملازم ہے‘صبح جا کے اپنی کرسی پر بیٹھتا ہے اور اس وقت اُٹھتا ہے جب چوکیدار جا کے اسے ہلاتا ہے کہ اب اُٹھ جائیں‘میں نے دفتر بند کرنا ہے۔کہتے ہیں کہ ہر فرد کو پڑھا لکھا کر ذمہ دار شہری بنانا چاہئے حالانکہ انہیں ذمہ دار شہری بنانے کے لئے سب سے پہلے تو انہیں گاؤں سے شہر شفٹ کر کے شہری بنانا ہو گا۔پھر پولیس کے تعاون سے کسی کام کا ذمہ دار ٹھہرا کر آپ انہیں ذمہ دار شہری بنا سکتے ہیں۔پڑھا لکھا کر آپ انہیں ہماری طرح بے روزگار بنا دیں گے۔یوں اس عمر میں ہماری ناخاوندگی کی وجہ ناخواندگی ہی ہے ورنہ اب تک خاوند کی جاب تو کر رہے ہوتے۔
بے روزگاری بڑھانے میں حکومت کے ساتھ ساتھ خدا کا بھی بڑا ہاتھ ہے کہ وہ ایک بندہ اوپر لاتا ہے تو ستر نیچے بھیج دیتا ہے۔پھر ملازمت کے لئے بنیادی کوالیفیکیشن رشوت اور سفارش ہے۔رشوت کا ہمارے معاشرے میں اس قدر عمل دخل ہے کہ ایک ڈاکٹر جس کی فیس سو روپے تھی اس کے پاس ایک مریض آیا ڈاکٹر نے معائنے کے بعد بتایا کہ ایک ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے ہو تو مریض نے پانچ سو کا نوٹ ڈاکٹر کو دیتے ہوئے کہا ”اب بتائیں میں کتنے ماہ زندہ رہوں گا۔“ پچھلے دنوں میرا ایک دوست کہنے لگا ”اب ثابت ہو گیا کہ خواب جھوٹے ہوتے ہیں۔“ میں نے کہا ”تم تو نفسیات کی روشنی میں ثابت کیا کرتے تھے کہ خواب حقیقت کا پر تو ہوتے ہیں‘اب تم نے کس طرح ثابت کر دیا کہ یہ جھوٹے ہوتے ہیں۔“ تو اس نے کہا ”میں نے رات خواب دیکھا ایک سرکاری دفتر میں مجھے انٹرویو کے لئے بلایا گیا اور پھر کسی سفارش کے بغیر ہی نوکری مل گئی۔اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ خواب جھوٹے ہوتے ہیں۔“
آسکر وائلڈ کہتا ہے کہ کچھ نہ کرنا دنیا میں مشکل ترین کام ہے۔مشکل ترین ہی نہیں ذہین ترین بھی۔یہ سچ ہے کہ بے روزگار ہونا اتنا مشکل کام ہے کہ میں نے اتنے لوگ کام کرتے مرتے نہیں دیکھے جتنے بے روزگاری سے مرتے ہیں۔لیکن پھر آج کل کا بے روزگار‘سکندر اعظم سے بہتر ہے اور اس کی بہتری یہ ہے کہ سکندر اعظم مر چکا اور یہ ابھی زندہ ہے۔
خواتین کی خواندگی کا عالم یہ ہے کہ ایک خاتون کی سرکردگی میں ایک سروے ٹیم بلوچستان گئی‘وہاں کئی قصبوں اور گاؤں میں پھرنے کے بعد ٹیم نے بتایا کہ اس سارے سفر کے دوران ہمیں صرف ایک پڑھی لکھی خاتون نظر آئی اور یہ خاتون وہ تھی جس کی سرکردگی میں یہ سروے ٹیم بلوچستان گئی تھی۔اب ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں اتنے اَن پڑھ ہیں تو ان کی نمائندگی کے لئے بھی اَن پڑھ ہی چاہئیں تاکہ وہ اسمبلی میں اس اکثریت کے مسائل بتا سکیں۔اس لئے ہمارے ہاں سیاست دانوں میں ہائی تعلیم یافتہ وہ ہوتا جو ہائی جماعت تک گیا ہو۔یوں بھی پڑھے لکھے نورتن ہوتے ہیں‘اکبر بننے کے لئے اَن پڑھ ہونا ضروری ہے۔ہمارے ایک وزیر سے ایک غیر ملکی صحافی نے پوچھا ”آپ کی تعلیم؟“ جواب ملا ”ایم اے کر لیتا اگر میٹرک میں رہ نہ جاتا۔“ وکٹر ہوگیو نے کہا ہے بے روزگاری ماں ہے جس کا ایک بچہ لوٹ مار اور ایک بچی بھوک ہے۔”ہمارے ہاں اس زچہ بچہ کی صحت کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔یہ سب سن کر میرا ایک دوست کہنے لگا اس سے تو لگتا ہے ایک بے روزگار سے زیادہ مظلوم دنیا میں کوئی نہیں۔“
ہم نے کہا ”ایک بے روزگار سے زیادہ مظلوم بھی دنیا میں ہیں۔“
بولا ”کون؟“
ہم نے کہا ”دو بے روزگار۔“
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment