Dakuon Ke Liye Haar - Article No. 2657
- Get link
- X
- Other Apps
Dakuon Ke Liye Haar - Article No. 2657
ڈاکوؤں کے لئے ہار - تحریر نمبر 2657
اگرچہ ہار ہی ڈاکوؤں کا مقدر ہے لیکن شاید ان کی یہ خوبی ان کو بچا لے کہ وہ ہار مان کر معافی چاہتے ہیں
جمعرات 26 جنوری 2023
ڈاکٹر محمد یونس بٹ
ڈاکو گلاب جسکانی نے پریس کلب رادھن کے نام خط میں لکھا ہے ”وزیر اعظم ہمیں سرِعام معاف کریں ورنہ․․․․“ ایک افسر کی کوٹھی پر ملاقاتی آیا‘چوکیدار نے بتایا
”سر!کوئی احمد علی ملنے آیا ہے۔“
”کون احمد علی؟“
”کہتا ہے صاحب کو سلام کرنے آیا ہوں۔“
”سلام کرنے آیا ہے!فقرہ جانا پہچانا ہے اندر بلا لو۔“
سو ڈاکو گلاب جسکانی کا فقرہ بھی ہمارے لئے جانا پہچانا ہے۔جب بھی کوئی مانگنے والا ہماری طرف بڑھنے لگے ہم فوراً کہتے ہیں ”بھئی معاف کرنا۔“معافی آج کل اس قدر اہمیت حاصل کرتی جا رہی ہے کہ لگتا ہے سکولوں میں جہاں پہلے بچوں کو چھٹی کی درخواست لکھنا سکھایا جاتا تھا اب وہاں معافی نامہ سکھایا جائے گا۔
ہمارے ایک دوست نے اپنی سیکرٹری سے شادی کی۔اب وہ اس کی بیوی ہے اور یہ اس کا سیکرٹری ہے۔کہتا ہے ”ازدواجی زندگی تو چلتی ہی معافی پر ہے۔کبھی خاوند کو چاہئے کہ وہ بیوی سے معافی مانگ لے اور کبھی بیوی کو چاہئے کہ خاوند کو معاف کر دے۔“
ایمرسن کہتا ہے ”آج تک کسی سیانے بندے نے معافی نہیں مانگی۔“لیکن ”ف“ کہتا ہے کہ یہ بیان ایمرسن نے شادی سے پہلے دیا تھا‘ورنہ وہ کہتا ہمیشہ سیانے بندے نے معافی مانگی۔میرے دوست ”ف“ نے وعدہ کیا تھا جب غلط بات کروں گا معافی ضرور مانگوں گا۔سو جب سے وہ سیاست میں آیا ہے وہ اپنی گفتگو کا آغاز ان فقروں سے کرتا ہے ”معافی چاہتا ہوں“ اگرچہ حکومت کو چاہئے کہ ہر سال کے آخر میں معافی کلیرنس سیل لگایا کرے تاکہ ڈاکوؤں اور کالا دھن رکھنے والوں کو ”معزز شہری“ بننے کا موقع مل سکے۔ٹی وی اور اخبارات میں اشتہار دیئے جائیں”گیارہ مہینے تہاڈے اک مہینہ ساڈا“ یعنی اس ماہ ہمارے پاس آ کر معافی وصول کریں۔ایک ایسے ڈاکو کے باپ کو مجسٹریٹ نے سمجھاتے ہوئے کہا کہ آخر اپنے بیٹے کی اصلاح کیوں نہیں کرتے؟اسے کیوں نہیں بتاتے کہ صحیح اور درست کیا ہے؟اس نے کہا ”بتاتا ہوں جناب عالی!یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے مگر اس کے باوجود پکڑا جاتا ہے“ اگرچہ ہار ہی ڈاکوؤں کا مقدر ہے لیکن شاید ان کی یہ خوبی ان کو بچا لے کہ وہ ہار مان کر معافی چاہتے ہیں۔ایک بار ایک بیوی سے اس کے خاوند نے پوچھا:
”ڈارلنگ آپ کو پتہ ہے مجھے تمہاری کون سی چیز پسند ہے؟“
”میرے بال؟“
”نہیں۔“
”میرا سراپا؟“
”نہیں“
”میری فہم و فراست“
”نہیں“
”میں ہار گئی“
”بس یہی مجھے پسند ہے۔“
ڈاکو گلاب جسکانی نے پریس کلب رادھن کے نام خط میں لکھا ہے ”وزیر اعظم ہمیں سرِعام معاف کریں ورنہ․․․․“ ایک افسر کی کوٹھی پر ملاقاتی آیا‘چوکیدار نے بتایا
”سر!کوئی احمد علی ملنے آیا ہے۔“
”کون احمد علی؟“
”کہتا ہے صاحب کو سلام کرنے آیا ہوں۔“
”سلام کرنے آیا ہے!فقرہ جانا پہچانا ہے اندر بلا لو۔“
سو ڈاکو گلاب جسکانی کا فقرہ بھی ہمارے لئے جانا پہچانا ہے۔جب بھی کوئی مانگنے والا ہماری طرف بڑھنے لگے ہم فوراً کہتے ہیں ”بھئی معاف کرنا۔“معافی آج کل اس قدر اہمیت حاصل کرتی جا رہی ہے کہ لگتا ہے سکولوں میں جہاں پہلے بچوں کو چھٹی کی درخواست لکھنا سکھایا جاتا تھا اب وہاں معافی نامہ سکھایا جائے گا۔
(جاری ہے)
دلدار بھٹی کے بارے میں ہے کہ وہ جب کسی سے زیادتی کرتا تو پھر اس سے معافی ضرور مانگ لیتا اس لئے جب کسی کی بے عزتی کرتا تو دل کھول کر کرتا کہ بعد میں معافی تو مانگ ہی لینی ہے۔
اس لئے اب ڈاکوؤں کو چاہئے کہ دل کھول کر ڈاکے مار لیں کیونکہ معافی تو لے ہی لینی ہے۔پہلے معافی مانگنے کے دیسی طریقے تھے کہ اپنی پگ کسی کے پاؤں میں رکھنا پڑتی گویا معافی مانگنے کے لئے پہلے بازار جا کر پگ کا کپڑا خریدو۔انگریزوں نے جہاں کئی اور ایجادات کیں ان میں سے ایک لفظ سوری ہے بڑی سے بڑی غلطی کرکے آپ یہ کہہ دیں تو دوسرا ناراض ہونے کی بجائے اُلٹا آپ کا شکریہ ادا کرے گا۔میں معافی مانگنے کو آج تک کمزوری اور بزدلی سمجھتا رہا۔اب پتہ چلا کہ آج کل ہر چیز اپنے زور بازو پر لینا پڑتی ہے ۔یہاں تک کہ معافی تک طاقت سے ملتی ہے۔اسی لئے ڈاکو ساتھ ورنہ!لگا کر معافی بھی تاوان کی طرح وصول کرنا چاہتے ہیں۔”ورنہ“ لگانے سے لگتا ہے ڈاکو پڑھے لکھے تو ہیں مگر نقل مار کر پاس نہیں ہوئے کیونکہ نقل کے لئے عقل چاہئے اور جو نقل سے پاس ہو اس کا عقلمند ہونا مسلمہ ہے‘ لیکن لگتا ہے کہ وہ خود سے پاس ہوئے ہیں تب ہی خود سر ہیں۔ورنہ یہ کہتے ”معاف کر دیں ناں!“ یا ”سوری“ کہتے۔ہمارے ایک دوست نے اپنی سیکرٹری سے شادی کی۔اب وہ اس کی بیوی ہے اور یہ اس کا سیکرٹری ہے۔کہتا ہے ”ازدواجی زندگی تو چلتی ہی معافی پر ہے۔کبھی خاوند کو چاہئے کہ وہ بیوی سے معافی مانگ لے اور کبھی بیوی کو چاہئے کہ خاوند کو معاف کر دے۔“
ایمرسن کہتا ہے ”آج تک کسی سیانے بندے نے معافی نہیں مانگی۔“لیکن ”ف“ کہتا ہے کہ یہ بیان ایمرسن نے شادی سے پہلے دیا تھا‘ورنہ وہ کہتا ہمیشہ سیانے بندے نے معافی مانگی۔میرے دوست ”ف“ نے وعدہ کیا تھا جب غلط بات کروں گا معافی ضرور مانگوں گا۔سو جب سے وہ سیاست میں آیا ہے وہ اپنی گفتگو کا آغاز ان فقروں سے کرتا ہے ”معافی چاہتا ہوں“ اگرچہ حکومت کو چاہئے کہ ہر سال کے آخر میں معافی کلیرنس سیل لگایا کرے تاکہ ڈاکوؤں اور کالا دھن رکھنے والوں کو ”معزز شہری“ بننے کا موقع مل سکے۔ٹی وی اور اخبارات میں اشتہار دیئے جائیں”گیارہ مہینے تہاڈے اک مہینہ ساڈا“ یعنی اس ماہ ہمارے پاس آ کر معافی وصول کریں۔ایک ایسے ڈاکو کے باپ کو مجسٹریٹ نے سمجھاتے ہوئے کہا کہ آخر اپنے بیٹے کی اصلاح کیوں نہیں کرتے؟اسے کیوں نہیں بتاتے کہ صحیح اور درست کیا ہے؟اس نے کہا ”بتاتا ہوں جناب عالی!یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے مگر اس کے باوجود پکڑا جاتا ہے“ اگرچہ ہار ہی ڈاکوؤں کا مقدر ہے لیکن شاید ان کی یہ خوبی ان کو بچا لے کہ وہ ہار مان کر معافی چاہتے ہیں۔ایک بار ایک بیوی سے اس کے خاوند نے پوچھا:
”ڈارلنگ آپ کو پتہ ہے مجھے تمہاری کون سی چیز پسند ہے؟“
”میرے بال؟“
”نہیں۔“
”میرا سراپا؟“
”نہیں“
”میری فہم و فراست“
”نہیں“
”میں ہار گئی“
”بس یہی مجھے پسند ہے۔“
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment